لند ن ( ہیلتھ ڈیسک)ایک جنرل فزیشن نے خبردار کیا ہے کہ اگر آپ اکثر شدید تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں، تو دو اہم علامات پر نظر رکھیں، جو کسی سنگین بیماری کی نشاندہی کر سکتی ہیں۔برطانیہ کی این ایچ ایس کی ہارمون ہیلتھ ماہر ڈاکٹر ملی رائزڈا نے کہا کہ اگرچہ تھکاوٹ ایک عمومی مسئلہ ہے اور اس پر زیادہ فکر کی ضرورت نہیں، تاہم اگر یہ کئی ہفتوں تک برقرار رہے، تو فوری طور پر طبی معائنہ ضروری ہے۔ڈاکٹر ملی کے مطابق، اگر تھکاوٹ ہلکی جسمانی سرگرمی جیسے سیڑھیاں چڑھنے یا یوگا کرنے کے بعد محسوس ہو، تو یہ پوسٹ-ایکسیرشنل میلیس (Post-Exertional Malaise) کہلاتا ہے، جو شدید تھکن کی بیماری کا اشارہ ہو سکتی ہے۔یہ علامات کرونک فٹیگ سنڈروم (سی ایف ایس) یا مائیالجک انسیفیلومائیلائٹس (ایم ای) کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں، جو ایک زندگی مفلوج کر دینے والی بیماری ہے۔کرونک فٹیگ سنڈروم کیا ہے؟یہ بیماری برطانیہ میں تقریبا 2.5 لاکھ افراد کو متاثر کرتی ہے، اور اس کی نمایاں علامات میں نیند کے مسائل، سوچنے، توجہ مرکوز کرنے اور یادداشت میں مشکلات، عام زندگی گزارنے میں مشکلات، اور روزمرہ کے کاموں میں رکاوٹ شامل ہیں۔رائل کالج آف سرجنز کے مطابق، صرف 10 فیصد مریض اس بیماری کی درست تشخیص حاصل کرتے ہیں کیونکہ اس کی علامات اکثر نظرانداز ہو جاتی ہیں۔ڈاکٹر ملی کی وارننگڈاکٹر ملی کا کہنا ہے کہ اگر تھکاوٹ چھ ماہ سے زیادہ برقرار رہے، تو یہ سی ایف ایس یا ایم ای کی تشخیص کے لیے کافی ہے۔ تاہم، چند ہفتوں تک جاری رہنے والی تھکاوٹ کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جلدی تشخیص اور خون کے ٹیسٹ کے ذریعے اس کی وجوہات کا پتہ لگایا جا سکتا ہے یا انہیں مسترد کیا جا سکتا ہے۔دیگر علاماتاس بیماری کی دیگر علامات میں یادداشت کی کمزوری، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، پٹھوں اور جوڑوں میں درد، بے وجہ سر درد، چکر آنا، دل کی دھڑکن کا تیز ہونا، بار بار گلے میں خراش یا سوجن زدہ غدود شامل ہیں، جو مدافعتی نظام کی خرابی کا اشارہ دیتے ہیں۔علاج اور مینجمنٹکرونک فٹیگ سنڈروم کا کوئی مستقل علاج نہیں ہے، لیکن ڈاکٹرز کے مطابق کچھ دوائیں، جیسے اینٹی ڈپریسنٹس، علامات کو کم کر سکتی ہیں۔ فزیوتھراپی اور کونسلنگ بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ توانائی مینجمنٹ ایک بہترین طریقہ علاج ہو سکتا ہے جس میں روزمرہ کی توانائی کو مثر طریقے سے استعمال کرنے کی حکمت عملی اپنائی جاتی ہے۔مشہور شخصیات بھی متاثربرطانوی اداکارہ اور کامیڈین مرانڈا ہارٹ نے اس بیماری کے ساتھ اپنی تین دہائیوں پر محیط جدوجہد کا ذکر کیا۔ ابتدا میں ان کی تشخیص ایگورافوبیا (بھیڑ اور کھلی جگہوں سے خوف) کی گئی تھی، لیکن بعد میں یہ بیماری لائم ڈیزیز میں تبدیل ہوئی، جو کرونک فٹیگ سنڈروم بن گئی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ جلدی تشخیص اور مناسب دیکھ بھال کرونک فٹیگ سنڈروم کا بہترین حل ہیں، اور دنیا بھر میں لاکھوں افراد اس بیماری سے متاثر ہیں۔
تھکاوٹ کی شکایت کا سنگین خطرہ، ماہر ڈاکٹر کی وارننگ
7