کو ئٹہ ( اباسین خبر)سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جب بھی آئینی ترامیم چیلنج کی گئی ہیں، انہیں سنجیدگی سے لیا گیا ہے، چاہے وہ آئین میں آرٹیکل 13/14 میں ترامیم ہوں یا 58(2)B، 63 A کا مسئلہ ہو یا 18 ویں ترمیم میں جوڈیشل کمیشن پاکستان اور پارلیمانی کمیٹی کے ساخت کا آئین کے آرٹیکل 175-A میں ترمیم کا معاملہ ہو۔ ہر دو مواقع پر نئی ترمیم کی شقوں پر عملدرآمد روک دیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ آئین کے 26 ویں ترمیم کو وکلا، سیاسی جماعتوں، تنظیموں اور افراد نے چیلنج کیا ہے، لیکن بدقسمتی سے ان مقدمات کی سماعت کے لیے ابھی تک تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے۔ اس کے بجائے، اس پر عملدرآمد کے ذریعے من پسند ججوں کی بھرتی کی کوشش کی جارہی ہے، جس میں مقننہ اور انتظامیہ کو برتری دی جارہی ہے اور عدلیہ میں تعیناتیوں کو بدنیتی کی بنیاد پر عجلت میں مکمل کیا جارہا ہے، جس سے ایک متبادل ڈوگر کورٹ تشکیل دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ 2010 میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مقننہ کے ممبران کو ترقیاتی فنڈ تجویز کرنے پر پابندی عائد کی تھی، لیکن آج انہی ممبران کی تجویز کردہ ججز کی تعیناتی کی سفارش عدلیہ کو سیاسی و گروہی وراثت میں تبدیل کردے گی۔ اس کا اثر ملک و قوم کے مستقبل پر منفی طور پر پڑے گا۔امان اللہ کنرانی نے مطالبہ کیا کہ جب تک آئین کے 26 ویں ترمیم کے مقدمات کی شنوائی اور فیصلہ سپریم کورٹ کے تمام 17 ججوں کے ذریعے نہ ہو، اس وقت تک ان ترمیمات کے تحت ججوں کی تقرری کے عمل کو روکا جائے، اور خودساختہ کنگرو ترمیم کے بل بوتے پر جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹیوں کو ججوں کی تقرری سے روکا جائے، جیسے 18 ویں ترمیم کو چیلنج کرنے والے کیس میں 2010 میں روکا گیا تھا۔
ریاست کے تیسرے ستون کو دیوار سے لگا نا ملک و قوم کے مستقبل کیلئے تباہ کن ہوگا، امان اللہ کنرانی
5