کراچی ( ہیلتھ ڈیسک)پاکستان میں طبی ماہرین نے بڑھتے ہوئے انفیکشنز اور مہلک بیماریوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے، اور حکومت سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ کراچی پریس کلب میں میڈیکل مائیکرو بایولوجیکل اینڈ انفیکشیس ڈیزیز سوسائٹی آف پاکستان کے ماہرین نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ جراثیم میں ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا ہو رہی ہے، جو ایک تشویشناک صورت حال ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان انفیکشنز کی سب سے بڑی مرکز بن چکا ہے، اور ان بیماریوں کی روک تھام کے لئے اقدامات ناکافی ہیں۔ڈاکٹر سمیہ نظام الدین نے خناق، پولیو، ریبیز، اور ویسٹ مینجمنٹ کے مسائل پر بات کی، اور کہا کہ ان بیماریوں کے پھیلا کو روکنے کے لئے عوامی آگاہی اور حکومتی پالیسی کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر نسیم صلاح الدین نے انفیکشن ڈیزیز کو پاکستان کی سب سے بڑی مہلک بیماری قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ قابل علاج اور بچا کے قابل ہیں، مگر ان پر قابو پانے کے اقدامات ناکافی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں ڈینگی، چکن گونیا اور زیکا وائرس کا خطرہ بڑھ رہا ہے، جس سے حاملہ خواتین اور بچوں کی صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ڈاکٹر ثنا انور نے خسرہ کے کیسز میں اضافے کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ ویکسین سے بچا کی بیماری ہے، مگر اس کے باوجود بچے اسکول نہیں جا پا رہے۔ انہوں نے کراچی میں گندگی کے ڈھیروں کو بیماریوں کا سبب قرار دیا اور کہا کہ ناقص صفائی اور آلودہ پانی کی وجہ سے ٹائیفائیڈ اور کولیرا جیسے امراض پھیل رہے ہیں۔ڈاکٹر فیصل سلیم نے کہا کہ جراثیم کی مزاحمت بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے ادویات کی کمی اور پیچیدگیاں بڑھ رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیو کے خاتمے کے لیے قومی سطح پر کیچ اپ مہمات اور بچوں تک رسائی ضروری ہے، اور سندھ میں خسرہ اور خناق کے کیسز کی تعداد میں اضافہ باعث تشویش ہے۔ڈاکٹر سمرین نے خناق کے کیسز میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیماری بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں میں بھی پھیل رہی ہے، اور اینٹی ٹاکسن کی کمی پر تشویش کا اظہار کیا۔ ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پولیو مہم کو مزید مثر بنایا جائے، کچرے کے ڈھیر ختم کیے جائیں، صاف پانی کی فراہمی اور صفائی کے انتظامات کو بہتر بنایا جائے تاکہ بیماریوں پر قابو پایا جا سکے۔
پاکستان انفیکشنز بیماریوں کا سب سے بڑا مرکز ہے، طبی ماہرین
5