اٹلی ( مانیٹر نگ ڈیسک) انٹر نیشنل نشر یاتی ادارے کی رپورٹ کے مطا بق اس موسمِ گرما میں یورپ کے متعدد ممالک میں سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے لیکن دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جہاں یورپ جتنی بھیڑ نہیں ہوتی اور وہ سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔اٹلی کے شہر وینس کے سینٹ مارک سکوائر میں کبوتروں سے زیادہ سیاح موجود ہوتے ہیں جبکہ سپین کے شہر بارسلونا میں کسی فٹ پاتھ پر چلتے وقت ایسا لگتا ہے جیسے آپ کسی سپر مارکیٹ میں گاہکوں کی ایک قطار میں لگے ہوئے ہیں۔لیکن سیاحوں کے رش سے پریشان ان ممالک کے علاوہ ایسے ملک بھی ہیں جن کا کلچر بہت وسیع ہے لیکن وہاں کی آبادی کم ہے۔اپنے کلچر کے حوالے سے مشہور ممالک میں اکثر یہ شکایت سننے میں آتی ہیں کہ وہاں سیاحت کے منفی نتائج دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ لیکن ترقی پذیر ممالک کے لیے سیاحت کے شعبے سے آنے والے پیسے بہت اہم ہیں کیونکہ اس سے انھیں اپنا انفراسٹرکچر بہتر کرنے میں مدد ملتی ہے۔اس کے علاوہ سیاحت میں اضافہ ہونے سے نہ صرف ملازمت کے مواقعوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ معیار تعلیم بھی بہتر ہوتا ہے۔ ایسے میں مقامی لوگوں کو یہ موقع بھی ملتا ہے کہ وہ اپنے کلچر اور روایات کو فروغ دے سکیں۔اگر سیاحت کے شعبے کو درست طریقے سے فروغ دیا جائے تو یہ دنیا بھر کے لوگوں کو متحد کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے اور وہ بھی ایسا ذریعہ جس سے معیشت کو بھی مدد ملے گی۔موسمِ گرما میں یورپ میں سیاحوں کے رش کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا مقصد یہ بالکل نہیں کہ اب سیاحت کا مستقبل تاریک ہو چکا ہے۔ہم آپ کو آج ایسے چار ممالک کے بارے میں بتائیں گے جو کہ سیاحوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنی معاشی ترقی کے لیے سیاحت کا استعمال کر رہے ہیں۔
گرین لینڈ
گرین لینڈ ایک ایسا ملک ہے جو زیادہ سے زیادہ سیاحوں کا خیرمقدم کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ دارالحکومت نوک میں اس برس ایک نیا ایئرپورٹ مسافروں کے لیے کھول دیا جائے گا جبکہ ملک کے تیسرے بڑے شہر الولیسات میں بھی ایک بین الاقوامی ایئرفیلڈ سنہ 2026 تک تیار ہوجائے گی۔اب تک گرین لینڈ کے ایئرپورٹ اتنے وسیع نہیں کہ وہاں بڑے مسافر جہاز لینڈ کر سکیں۔ یہاں آنے والے لوگوں کو پہلے سابق امریکی فوجی بیس کانگرلوسواک جانا پڑتا تھا اور پھر وہاں سے چھوٹے جہازوں کے ذریعے لوگ گرین لینڈ کے دارالحکومت پہنچتے تھے۔تاہم نئے ایئرپورٹ کے افتتاح کے بعد سیاحوں کی ایک بڑی تعداد براہِ راست نوک کا سفر کر سکے گی۔ اس کے علاوہ اس کے سبب ملک میں درآمدات بڑھیں گی اور سمندر سے حاصل ہونے والی خوراک کی برآمد بھی بڑھے گی۔گرین لینڈ میں لوگوں کی توقع یہ ہے کہ سیاحت کے فروغ کے سبب ملک کی معیشت مستحکم ہوگی۔دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ گرین لینڈ میں نئے ایئرپورٹ پر خرچ ہونے والے پیسے سیاحت کی مد میں آنے والی کمائی سے واپس قومی خزانے میں شامل کیے جائیں گے اور اسی سبب مستقبل میں ملازمتوں کے مواقع بھی بڑھیں گے۔گرین لینڈ اس وقت دو طرح کی سیاحت پر توجہ دے رہا ہے
۔ پہلی ایڈوینچر ٹورازم ہے جس میں کوہ پیمائی، وہیل مچھلیوں کو دیکھنا اور برف پر خیمہ زنی شامل ہے۔ملک میں سیاحت کی دوسری کیٹگری میں ان لوگوں کی دلچسپی ہوگی جو کہ آسمان پر چمکنے والے ستاروں یا ناردرن لائٹس دیکھنے کے شوقین ہیں۔سیاح گرین لینڈ کا رخ عام طور پر گرمیوں میں کرتے ہیں لیکن مقامی افراد کی ملازمتوں کو مزید مستحکم کرنے کے لیے انھیں سردیوں میں بھی سیاحوں کی بڑی تعداد درکار ہے۔لیکن ایسا مقام جہاں درجہ حرارت منفی 50 تک جا سکتا ہے وہاں سردیوں میں سیاحوں کی توجہ حاصل کرنا ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔اس کے باوجود بھی گرین لینڈ کی حکومت کی کوشش ہے کہ ناردن لائٹس اور آسمان کا صاف نظارا دینے والے ہوٹلوں کے ذریعے سیاحوں کو ایک ایسا تجربہ کروایا جاسکے جو کہ انھیں زندگی بھر یاد رہے۔گرین لینڈ کی ٹورازم اتھارٹی کے سربراہ تانی فار کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد یہ ہے کہ مقامی آبادی کی کم از کم 80 فیصد تعداد کو یہ دکھایا جا سکے کہ سیاحت معاشرے میں مثبت تبدیلی لا رہی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ایئر پورٹ بنانے پر بہت زیادہ پیسہ لگتا ہے، اسی لیے ہمیں بہت سارے سیاحوں کی ضرورت ہے۔لیکن ہمیں یہ سب ایک متوازن طریقے سے کرنا ہوگا تاکہ سیاحوں کی تعداد انتی زیادہ نہ بڑھ جائے جس سے مقامی افراد کی زندگیوں پر برا اثر پڑے۔تانی فار نے حال ہی میں شمالی گرین لینڈ کا دورہ بھی کیا تھا جہاں سنہ 2026 میں الولیسات کے رن وے پر بین الاقوامی فلائٹس ار سکیں گی۔