لاہور( اباسین خبر)لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس ملک اویس خالد نے عدالتی اختیار سے متعلق اہم قانونی نقطہ واضح کرتے ہوئے 8 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔عدالت نے درخواست گزار صائمہ الطاف کی ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کی جانب سے درخواست گزار کا دعوی مسترد کرنے کا فیصلہ درست قرار دیا۔فیصلے میں جسٹس ملک اویس خالد نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق ٹرائل کورٹ نے درخواست گزار کو شواہد پیش کرنے کے متعدد مواقع فراہم کیے، مگر درخواست گزار نے تاخیری حربے استعمال کرتے ہوئے شواہد پیش نہیں کیے۔ عدالت نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ نے درخواست گزار کو ڈیڑھ برس تک گواہ پیش کرنے کے مواقع دیے، تاہم درخواست گزار نے اس عرصے میں ایک بھی گواہ بیان ریکارڈ کرانے کے لیے پیش نہیں کیا۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اس صورت حال میں عدالت کے پاس قانون کے مطابق دعوے کی کارروائی کو آگے بڑھانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ عدالتوں کو اپنے فیصلوں پر سختی سے عملدرآمد کرانا چاہیے اور اس میں کسی قسم کا استثنی نہیں ہونا چاہیے۔عدالتی فیصلے میں مزید لکھا گیا کہ اس کیس کو اس اینگل سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹرائل کورٹ میں دعوی تین برس تک چلتا رہا اور دوسرے فریق کو تین برس تک مقدمے کی اذیت سے گزرنا پڑا۔ لہذا، ٹرائل کورٹ نے درخواست گزار کا دعوی درست طور پر مسترد کیا۔فیصلے میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ جسٹس مسعود عابد نقوی اور جسٹس ملک اویس خالد پر مشتمل دو رکنی بنچ نے محفوظ کیا تھا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس ملک اویس خالد کا بڑا فیصلہ
2