اسلام آباد( اباسین خبر)سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلنز کے ملٹری ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت جاری ہے۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے سماعت کی۔سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں پارلیمنٹ نے آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی کی تھی۔وکیل سلمان اکرم راجہ نے آرمی ایکٹ کو “بلیک ہول” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی ایکٹ کے ساتھ بنیادی حقوق کا تعلق ہے تو وہ متاثر ہوں گے۔ تاہم جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر کسی فوجی جوان کا گھریلو مسئلہ ہو اور وہ دوسری شادی کرے، تو کیا اسے ملٹری کورٹ بھیجا جائے گا؟اسی دوران، جسٹس نعیم اختر افغان نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے دلچسپ مکالمہ کیا، جس میں انہوں نے وکیل کو یاد دلایا کہ ان کی سیاسی جماعت نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی تھی اور پارلیمنٹ نے اس قانون سازی میں گرمجوشی سے حصہ لیا تھا۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے اس پر کہا کہ وہ اس وقت تحریک انصاف کا حصہ نہیں تھے۔سماعت کے دوران وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اگر قانونی فریم ورک تبدیل ہو جائے تو جوڈیشل ریویو کیا جا سکتا ہے، اور انہوں نے آرٹیکل آٹھ 3 کے استثنی پر بات کی۔جسٹس نعیم اختر افغان نے سوال کیا کہ 1967 میں آرڈیننس کے ذریعے آرمی ایکٹ میں ٹو ون ڈی ون آیا تھا، کیا اس کی معیاد ختم ہوچکی ہے؟ اور کیا یہ آرڈیننس اپنی معیاد مکمل ہونے کے بعد متروک ہو چکا؟ وکیل سلمان اکرم راجہ نے اس سوال پر کہا کہ وہ وقفے کے دوران اس نکتے کی تحقیق کریں گے۔
‘پی ٹی آئی نے اپنی حکومت میں بڑی گرم جوشی سے آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی کی’
5