اسلام آباد( اباسین خبر)سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ بنیادی حقوق معطل کرنے کے لیے ایمرجنسی کا نفاذ ضروری ہے۔آئینی بنچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کر رہے ہیں، جس میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پانچ رکنی لارجر بنچ نے آرٹیکل 233 کی غلط تشریح کی، جس کے تحت ایمرجنسی کے دوران ہی بنیادی حقوق معطل ہو سکتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے اس پر کہا کہ اس کیس میں بنیادی حقوق معطل ہونے کا سوال نہیں۔جسٹس امین الدین خان نے سوال کیا کہ کیا اس معاملے میں ایمرجنسی کا نفاذ ضروری ہے؟ جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ نے ایمرجنسی کے آرٹیکل 233 کو غیر مثر قرار دے دیا ہے۔دوران سماعت آئینی بنچ نے 9 مئی کے ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حوالے سے سوالات اٹھائے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ یہ دائرہ اختیار کون طے کرتا ہے کہ کس کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوگا؟جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمیں اپنے پراسیکیوشن کے نظام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔دوران سماعت بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے کیس کا بھی تذکرہ ہوا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی شق 2 ڈی کو کالعدم قرار دیا، جس کا اثر یہ ہوگا کہ کلبھوشن یادیو جیسے کیسز ملٹری کورٹ میں نہیں چل سکتے۔بعد ازاں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کل بھی دلائل دیں گے۔
سویلینز ٹرائلز کیس: بنیادی حقوق معطل کرنے کیلئے ایمرجنسی ہونا ضروری ہے، آئینی بنچ
3