اسلام آباد( اباسین خبر)سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پانچ ججز متفق تھے کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کی، جس میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل تھے۔ ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کے خلاف پانچ رکنی بنچ کے تین فیصلے ہیں اور تمام ججز نے ایک دوسرے کے فیصلوں سے اتفاق کیا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ججز نے اضافی نوٹ نہیں بلکہ فیصلے لکھے تھے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے وضاحت کی کہ تمام پانچ ججز متفق تھے کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا۔فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ فوجی عدالتوں کی شقوں کو کالعدم قرار دیے بغیر سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر آپ نے اسی طرح دلائل دیے تو سماعت تین ماہ تک چل سکتی ہے۔عدالت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں کی سماعت میں مختصر وقفہ دیا، جس کے بعد فیصل صدیقی نے مزید دلائل دیے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ آیا اے ٹی سی جج کا ملزم حوالے کرنے کا باضابطہ حکم نامہ ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ حکم نامہ تو ہے لیکن وجوہات نہیں دی گئیں۔بعد ازاں عدالت نے سماعت 28 فروری تک ملتوی کر دی۔
تمام 5 ججز متفق تھے سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا: جسٹس جمال مندوخیل
2