اسلام آباد ( اباسین خبر)اسلام آباد میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ملٹری کورٹ پر دو اہم اعتراضات ہیں۔ ایک یہ کہ ملٹری ٹرائل غیر جانبدار نہیں ہوتا، اور دوسرا یہ کہ ٹرائل کرنے والوں پر قانونی تجربہ نہ ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔سماعت کے دوران سپریم کورٹ بار کے سابقہ عہدیداروں کے وکیل عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل نے تحریری یقین دہانیاں دی تھیں، لیکن وہ ان وعدوں کو پورا نہیں کر سکے۔ عابد زبیری نے جنرل ضیا الحق کے دور کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جنرل ضیا الحق نے ایف بی علی کا ملٹری ٹرائل کیا، اور ضیا الحق نے اس وقت کا جو کام ایف بی علی کرنا چاہ رہا تھا، وہ کر دیا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں ملٹری ٹرائل کے لیے مکمل پروسیجر فراہم کیا گیا ہے اور اگر اس پروسیجر پر عمل نہ ہو، تو پھر اس کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔مزید برآں، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ فوج کا کام ملک کا دفاع کرنا ہے اور فوج کا ایگزیکٹو کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس پر عابد زبیری نے کہا کہ آرمی کا کام سرحد پر لڑنا ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے فوج کے کام کو ملک کے دفاع سے جوڑا۔اس کے علاوہ، جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل سے پوچھا کہ کیا وہ ملٹری کورٹ کو عدلیہ تسلیم کرتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر اس کے نتائج مختلف ہو سکتے ہیں، اور اگر ملٹری کورٹ کو عدلیہ تسلیم کیا جائے تو اس کے نتائج مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔
ملٹری کورٹ پر اعتراض ہے کہ ٹرائل غیر جانبدار نہیں ہوتا: آئینی بنچ
1