کو ئٹہ ( اباسین خبر)سپریم کورٹ بار ایسوسیشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے القادر کیس میں 17 جنوری کو عمران خان اور ان کی اہلیہ کو دی جانے والی سزا پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ترمیم شدہ نیب آرڈیننس اور قانون، جو موجودہ حکومت نے جاری کیا ہے، اس کے تحت کابینہ کی منظوری سے کسی بھی فیصلے کو جرم کی تعریف سے نکال کر استثنی دے دیا گیا ہے۔ لہذا ان کے مطابق کسی بھی رقم کا ایک اکانٹ سے دوسرے اکانٹ میں منتقل ہونا اب جرم نہیں سمجھا جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ القادر ٹرسٹ کو ملک ریاض بحریہ ٹائون کی طرف سے پیسہ یا جائیداد دینے کا عمل ایک رضاکارانہ عمل ہے جو دو نجی شخصیات کے درمیان ہوا، اور اس میں ریاست یا قانون کا عمل دخل نہیں ہے، اس لیے یہ نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔امان اللہ کنرانی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان میں سیاسی رہنماں کے خلاف سزائیں ہمیشہ متنازعہ رہی ہیں اور اکثر یہ سزائیں ایک کمزور بنیاد پر دی گئی ہیں۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹوکے علاوہ دیگر رہنماں کو ہمیشہ ایسی سزائیں دی گئیں جو بعد میں ثابت نہیں ہوئیں یا قانون میں ترمیم کر کے ان پر نظرثانی کی گئی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک سیاسی رہنما کو جس نے عمر قید کی سزا کے باوجود سرکاری اعزاز کے ساتھ بیرون ملک سفر کیا، اس کے بعد بھی فرمائشی اپیل پر بری کیا گیا اور وہ تین بار وزیراعظم بنے۔ اس کے برعکس، عمران خان کو جو سزا دی گئی ہے، وہ ایسی کارروائی پر مبنی ہے جو قانون کی کتاب سے حذف کی جا چکی ہے۔
عمران خان ایسے جرم میں سزاہوئےجو قانون کی کتاب سے حذف شدہ ہے،امان اللہ کنرانی
3