لند ن (مانیٹرنگ ڈیسک)سرجری کی تاریخ ایک طویل اور دلچسپ سفر پر مشتمل ہے، جس میں مختلف تہذیبوں نے اس علم کو اپنے طور پر فروغ دیا۔ قدیم مصر میں سرجری کے ابتدائی آثار ملتے ہیں، اور معروف مصری طبیب ام ہوتپ (Imhotep) نے سرجری کے بارے میں پہلی کتاب لکھی۔ اس کے بعد مختلف تہذیبوں جیسے سمیری، چینی، ہندوستانی اور عرب جراحوں نے سرجری کے فن کو ترقی دی۔ عربی دنیا میں کئی مشہور جراحوں نے اپنی تحقیق اور تجربات سے جراحی کے علم میں اہم اضافہ کیا، جن میں حنین بن اسحاق، ابن زکریا رازی، ابن مجوسی، الزہراوی اور ابن زہر شامل ہیں۔یہ سب اہم شخصیتیں نہ صرف اپنے دور کے ماہر جراح تھے، بلکہ انہوں نے سرجری کی تکنیکوں کو بہتر بنانے، نیا علم فراہم کرنے اور مختلف بیماریوں کا علاج کرنے کے لئے بے شمار طریقے ایجاد کیے۔ ان کے تجربات اور علم کی بدولت جراحی کے شعبے میں کئی سنگ میل طے ہوئے، اور آج ہم جو جدید سرجری کے طریقے استعمال کرتے ہیں، ان کی بنیاد انہی قدیم محققین کی تحقیق پر ہے۔آج کے دور میں، ٹیکنالوجی کے تیز رفتار ارتقا نے طب کے شعبے میں انقلابی تبدیلیاں لائی ہیں۔ روبوٹ سرجنز، جیسے کہ ڈا وانچی سرجیکل سسٹم (Da Vinci Surgical System)، نے سرجری کے طریقوں میں ایک نیا باب کھولا ہے۔ یہ خودمختار روبوٹ سرجن پیچیدہ سرجریز میں انسانوں کی مدد کر رہے ہیں اور ان کے ذریعے سرجری زیادہ محفوظ، درست اور کم دردناک ہو رہی ہے۔ روبوٹ سرجنز کا یہ سسٹم نہ صرف مریضوں کے لیے فائدہ مند ہے بلکہ سرجنز کے لیے بھی اس کا استعمال آسان اور کم وقت طلب ہے۔ڈا وانچی سرجیکل سسٹم جیسے روبوٹ کا استعمال ان سرجریوں میں کیا جا رہا ہے جو پہلے انتہائی پیچیدہ سمجھی جاتی تھیں، جیسے دل کے آپریشن، نیوروسرجری، اور دیگر نازک آپریشنز۔ اس ٹیکنالوجی کا فائدہ یہ ہے کہ یہ انتہائی درستگی کے ساتھ سرجری کرتا ہے، جس کی بدولت کم پیچیدگیاں، کم خون بہنا اور مریض کی جلد صحت یابی ممکن ہوتی ہے۔اس تیزی سے ترقی کرتی ٹیکنالوجی کے ساتھ، مستقبل میں روبوٹ سرجنی کے شعبے میں مزید ترقی اور جدید آلات کی متعارف کرائی جانے کی توقع ہے۔ شاید ایک دن یہ ٹیکنالوجی اس قدر ترقی کر جائے کہ یہ جراحی کے تمام پیچیدہ مراحل کو خودکار طریقے سے مکمل کر سکے، اور ہمیں انسانی سرجن کی ضرورت نہ ہو۔ اس دوران ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ انسان اور ٹیکنالوجی کا اشتراک کیسے ہم سب کی زندگیوں کو بہتر بنا سکتا ہے۔
روبوٹ سرجن سے ملیے
23