نئی دلی (مانیٹرنگ ڈیسک) بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں ‘لوک سبھا’ میں مودی حکومت کے پیش کردہ ‘وقف ترمیمی بل’ پر شدید ہنگامہ ہوا۔ کانگریس، سماج وادی پارٹی، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین، ترنمول کانگریس اور دیگر حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے اسے آئین، ملک اور مسلم مخالف قرار دیا۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق، کانگریس کے رکن کے سی وینو گوپال نے کہا کہ یہ بل آئینی حقوق پر حملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ کی جائیدادیں ان لوگوں کی دین ہیں جو انہیں عطیہ کرتے ہیں، اور حکومت اس بل کے ذریعے غیر مسلموں کو وقف بورڈ کی گورننگ کونسل کا رکن بنانا چاہتی ہے۔ وینو گوپال نے سوال اٹھایا کہ جب کوئی غیر ہندو ایودھیا مندر بورڈ کا حصہ نہیں ہو سکتا، تو غیر مسلم کو وقف کونسل کا حصہ بنانا مذہبی آزادی کے حقوق پر حملہ ہے۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے بل کو مودی حکومت کی مسلم دشمنی کا ایک اور ثبوت قرار دیا اور کہا کہ یہ بل آئین پر حملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہندو کمیٹی اور گرودوارہ پربندھک کمیٹی میں غیر مذاہب کے افراد شامل نہیں ہوتے، تو وقف بورڈ میں کیوں؟ انہوں نے مزید کہا کہ وقف کی جائیداد عوامی ملکیت نہیں، اور مودی حکومت مسلمانوں کی املاک پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ عمران مسعود نے کہا کہ حکومت اس بل کے ذریعے آئین کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو وقف کی زمینوں کو قبضے سے آزاد کرانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی، لیکن اس کے بجائے وہ ان پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مسلم لیگ کے رکن پارلیمنٹ محمد بشیر نے کہا کہ بی جے پی حکومت مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کر رہی ہے اور اس بل کے ذریعے نظام کا خاتمہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حزبِ اختلاف کی شدید مخالفت کے بعد وزیر برائے اقلیتی امور نے بل کو جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے حوالے کرنے کی تجویز دی، جس کے بعد سپیکر اوم برلا نے کہا کہ اس معاملے پر جلد ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ دریں اثنا، جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے بھی وقف ایکٹ میں مجوزہ ترمیمات پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیمات وقف جائیدادوں کے تحفظ کے لیے نقصان دہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وقف جائیدادیں حکومت کے قبضے میں نہیں لائی جا سکتیں۔
بھارت” پارلیمنٹ میں شدید ہنگامہ آرائی
66