اسلام آباد( اباسین خبر)سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران، جسٹس محمد علی نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ خاص طور پر افواج پاکستان کے ممبران کے لیے بنایا گیا ہے۔جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔ دوران سماعت، جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا فوجی عدالتیں آرٹیکل 175 کے تحت بن سکتی ہیں، جو کہ عدالتوں کے قیام کے لیے آئینی اصول فراہم کرتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے بھی اسی حوالے سے سوال کیا اور کہا کہ کیا کوئی ایسا فورم ہے جو آرٹیکل 175 کے تحت نہ بنایا گیا ہو اور سویلین کا ٹرائل کرسکے؟وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آرمی ایکٹ صرف آرمڈ فورسز کے ڈسپلن اور فرائض کی انجام دہی کے لیے ہے، اور 9 مئی کے واقعات میں انسداد دہشت گردی کا کوئی جرم نہیں تھا۔جسٹس جمال مندوخیل نے مزید ریمارکس دیے کہ کسی فوجی اہلکار کے کام میں رخنہ ڈالنے کا جرم انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت آتا ہے، اور 9 مئی کے واقعات میں دوسرا جرم آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت آتا ہے۔خواجہ حارث نے مزید کہا کہ آئین میں درج ہے کہ آرمی ایکٹ افواج کو اپنے فرائض درست طریقے سے ادا کرنے کے لیے ضروری ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ایف بی علی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں بنیادی حقوق کا سوال تھا، جس پر خواجہ حارث نے وضاحت دی کہ ایف بی علی کیس میں بنیادی حقوق کے سلب ہونے پر چیلنج کیا گیا تھا۔فوجی عدالتوں سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی، اور خواجہ حارث کو جواب الجواب دینے کا موقع دیا گیا۔
کیا کوئی ایسا فورم ہے جو آرٹیکل 175 کے تحت نہ بنایا گیا ہو اور سویلین کا ٹرائل کرسکے؟:جسٹس جمال مندوخیل
4