کو ئٹہ ( اباسین خبر)بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اخترجان مینگل نے کہا ہے کہ ریاست نے بلوچستان میں پارلیمانی سیاست کے تمام دروازے خود بند کر دیے ہیں، اور اب ہمارے لیے صرف دو راستے ہیں: یا تو ڈاکٹر اللہ نذر بن جائیں، یا سرفراز بگٹی بنیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ملک کے تمام اداروں کے ساتھ چالیس سال تک کوشش کی لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا، اور اب میں پارلیمانی سیاست سے مایوس ہو چکا ہوں۔مینگل نے کہا کہ ریاست نے بلوچ ثقافت اور روایات کی سرکوبی کی ہے، اور بلوچ سرداروں کو اس طرح تقسیم کیا ہے کہ وہ نہ تو پورے طور پر سردار ہیں اور نہ ہی ان کی کوئی طاقت باقی ہے۔ قبائلی نظام کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ نظام دراصل سرداری اور قبائلی نہیں، بلکہ سرکاری اداروں کا پیدا کردہ ہے۔ سردار کی اصل ذمہ داری اپنے قبائل کے لیے انصاف فراہم کرنا اور انہیں تحفظ دینا تھا، لیکن اب سردار خود سرکار کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ قبائلی معاشرے میں خواتین کی عزت کا خاص خیال رکھا جاتا تھا، لیکن آج کی صورتحال میں بلوچ عورت خود سردار کے محافظوں سے بھی محفوظ نہیں ہے۔ سردار اخترجان مینگل نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں کبھی بھی کسی بلوچ عورت کو بندوق کے زور پر اغوا نہیں کیا گیا تھا، مگر اب یہ واقعہ سامنے آچکا ہے۔مینگل نے ریاست کی خاموشی پر بھی سوال اٹھایا، خصوصا جب ریاستی ادارے بلوچستان میں بلوچ ایتھکس اور قبائلی نظام کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سیاسی پارٹیاں، قبائلی سردار اور سیاسی قیادت اپنی کمزوریوں کے باعث ان مسائل کا سامنا کر رہی ہیں۔سردار اخترجان مینگل نے آخر میں کہا کہ اب بلوچ قوم تبدیلی کی طرف بڑھ رہی ہے اور وہ پارلیمانی سیاست سے مایوس ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر بی این پی کے دوستوں کے پاس فوجی کرنل کو رشوت دینے کے لیے 50 کروڑ روپے ہوں تو وہ پارلیمنٹ کے بارے میں سوچیں، ورنہ عوامی ووٹ کے ذریعے پارلیمنٹ میں جانے کا راستہ اب بند ہو چکا ہے۔انہوں نے بلوچستان میں نوجوانوں کی سیاست میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کو سراہا اور ان کی کامیابی کی دعا کی۔
سیاسی قیادت کی کمزوری کی وجہ سے ریاست نے بلوچ ایتکس کی ریڈلائن کراس کردی ہے،اخترمینگل
9