اسلام آباد( اباسین خبر)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مہاجرین کے پروگرام کی معطلی، پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے لیے ایک امتحان بن گئی ہے، خاص طور پر افغانستان سے امریکہ منتقلی کے منتظر پناہ گزینوں کے معاملے میں۔ رپورٹ کے مطابق، بائیڈن انتظامیہ نے ریفوجی پروگرام کے تحت 25 ہزار سے زائد افغانوں کو امریکہ منتقل کرنے کا وعدہ کیا تھا، جن میں زیادہ تر وہ افغان ہیں جو امریکی فوج یا اس کے کنٹریکٹرز کے لیے کام کرتے تھے۔ طالبان کے 2021 میں افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد یہ افغان امریکہ منتقل ہونے والے تھے، لیکن اب تک ان کی منتقلی کا عمل شروع نہیں ہو سکا ہے۔پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی اکثریت امریکہ کی درخواست پر یہاں آئی تھی اور انہیں عارضی طور پر پاکستان میں رہنے کی اجازت دی گئی تھی۔ بائیڈن انتظامیہ نے پناہ گزینوں کی منتقلی کے لیے مختلف طریقے اپنانے کی یقین دہانی کرائی تھی، لیکن ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے پروگرام کی معطلی کے بعد ان کی منتقلی کا عمل متاثر ہو گیا ہے۔امریکی فوج کے لیے کام کرنے والے 1660 افغانوں کو اپنی اہلخانہ کے ساتھ امریکا منتقل کرنے کی کلیئرنس مل چکی تھی، لیکن ریفوجی پروگرام کی معطلی کے بعد ان کی فلائٹس منسوخ ہو گئیں۔ افغان انخلا گروپ کے سابق امریکی فوجی افسران کے مطابق ان افغانوں میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو امریکا کی مدد کرنے کی وجہ سے طالبان کی انتقامی کارروائیوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔پاکستان نے ہمیشہ افغان پناہ گزینوں کی امریکہ منتقلی کے عمل کو تیز کرنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ ان کی موجودگی پاکستان کے لیے تشویش کا باعث بن سکتی ہے، خاص طور پر اس وقت جب پاکستان نے 2023 میں غیر قانونی افغانوں کے خلاف کریک ڈان شروع کیا۔ امریکہ نے پاکستان سے درخواست کی تھی کہ ان افغانوں کو رعایت دی جائے جو امریکہ منتقل ہونے کے اہل ہیں، جس پر پاکستان نے اس منتقلی کو جلد مکمل کرنے کی بات کی تھی۔تاہم، اب تک بائیڈن انتظامیہ اس معاملے کو تسلیم کرتی ہوئی نظر آتی ہے لیکن ٹرمپ کی جانب سے ریفوجی پروگرام کی معطلی نے اس صورتحال کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان نے اس معاملے پر باضابطہ ردعمل دینے سے گریز کیا ہے۔
مہاجرین پروگرام معطل، ٹرمپ پاکستان تعلقات میں بدمزگی کا خدشہ
3