کراچی ( اباسین خبر)ملک میں عام انتخابات کو ایک برس دو ماہ ہو چکے ہیں اور سندھ میں پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، جماعت اسلامی، اور پاکستان تحریک انصاف نے اپنے منشور پیش کیے تھے، جن میں عوام کے بنیادی مسائل کے حل کے وعدے کیے گئے تھے۔ انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی سندھ میں برسر اقتدار آئی، تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت اور اپوزیشن صوبے میں اپنے منشور کے مطابق عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔جامعہ کراچی کی سابق پروفیسر ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ نے کہا کہ سندھ اسمبلی کے ارکان اور پارلیمانی جماعتوں کی کارکردگی سے عوام مطمئن نہیں ہیں۔ سینئر تجزیہ کار منیر الدین نے بھی کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد میں اضافہ ہوگا، جو حکومتی کارکردگی پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔دوسری جانب عبدالجبار ناصر نے کہا کہ سندھ کے ارکان اسمبلی کی تنخواہیں بلوچستان اور گلگت بلتستان کے ارکان سے کم ہیں اور ان کا اصل کام قانون سازی کرنا ہے۔ پیپلز پارٹی کو اپنے منشور کے مطابق عوامی وعدے پورے کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔ اپوزیشن جماعتوں کی کارکردگی اسمبلی میں بہتر ہو سکتی ہے، مگر عوامی مسائل کے حل کے لیے انہیں مزید سیاسی طور پر متحرک ہونا ہوگا۔سندھ کے مختلف علاقوں کے عوام، جیسے احمر قریشی اور عائشہ علی، کا کہنا ہے کہ انہیں سیاسی جماعتوں کے منشور یا اسمبلی کے ارکان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور مہنگائی نے متوسط طبقے کے بجٹ کو متاثر کیا ہے۔پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل وقار مہدی کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت معاشی اصلاحات اور عوامی مسائل کے حل پر کام کر رہی ہے، جبکہ ایم کیو ایم پاکستان اور جماعت اسلامی کے ارکان بھی عوام کے مسائل کے حل کے لیے سرگرم ہیں۔ پی ٹی آئی کے ارکان بھی اپنے منشور کے مطابق عوامی مسائل کے حل کے لیے اسمبلی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
سندھ میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی کارکردگی عوامی مسائل کے حل میں ناکام رہیں، تجزیہ کاروں کا دعوی
10