نیویارک ( مانیٹرنگ ڈیسک) بلیک ہولز نہ صرف اپنی خصوصیات کی وجہ سے دلچسپی کا باعث ہیں بلکہ ان کے ارد گرد موجود اسرار بھی حیرت کا سامان فراہم کرتے ہیں۔آپ نے بالکل درست ذکر کیا کہ حالیہ تحقیق میں سائنسدانوں نے یہ دریافت کیا ہے کہ بلیک ہولز “اپنا کھانا” خود پکا کر کھاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بلیک ہولز کے ارد گرد موجود گرم گیسوں کو وہ جذب کرتے ہیں اور ان کی شدت سے طوفان جیسا جوش پیدا ہوتا ہے، جو ان کے ارد گرد کے مادے کو ٹھنڈا کرنے اور نئے پیٹرن بنانے میں مدد دیتا ہے۔ اس عمل کی وضاحت کے لیے جو رنگوں کا ذکر کیا گیا، جیسے جامنی اور گلابی رنگ کی شریانوں جیسا پیٹرن، وہ بلیک ہول کے ارد گرد گیسوں کی حالت کو ظاہر کرتا ہے۔بلیک ہولز کی تشکیل:بلیک ہول اس وقت بنتا ہے جب کسی عظیم ستارے کا مکمل مادہ اس کے مرکز میں سمیٹ کر چھوٹے سے حجم میں آجاتا ہے، اور اس کی کششِ ثقل اتنی طاقتور ہو جاتی ہے کہ وہ روشنی کو بھی اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بلیک ہول کی جانب جانے والی کوئی بھی چیز، بشمول روشنی، واپس نہیں آ سکتی۔بلیک ہول کا اسرار:بلیک ہولز کو کائنات کے “موت کے گڑھوں” یا “کائنات کی راہ گزر” کے طور پر بھی بیان کیا جاتا ہے، کیونکہ ان کے اندر موجود مواد اس حد تک گہرا اور پیچیدہ ہوتا ہے کہ ہمیں اس کے اندر کیا ہوتا ہے، اس کا قطعی علم نہیں ہو پاتا۔ حالیہ تحقیق سے یہ بھی واضح ہوا کہ بلیک ہول کے ارد گرد کی گیسوں میں موجود ہیجان ان کے طوفانی عمل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔دلچسپی کا مرکز:ان تمام خصوصیات کے ساتھ، بلیک ہولز کا مطالعہ سائنسدانوں کے لیے ایک مستقل چیلنج رہا ہے۔ تاہم، یہ حالیہ دریافت کہ بلیک ہول اپنے ارد گرد کے ماحول کو “پکا کر کھاتا ہے” اور اس کے اثرات کا تجزیہ کرنا، اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اس عجیب کائناتی مظہر کو سمجھنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔بلیک ہولز کے بارے میں تحقیق صرف ان کی تشکیل اور خواص تک محدود نہیں بلکہ یہ کائنات کے دیگر اسرار کو سمجھنے میں بھی مدد فراہم کرتی ہے۔
سائنسدانوں نے بلیک ہول کا ایک دلچسپ اسرار جان لیا
5